بدقسمتی سے جب سے مغربی فکر، طور اطوار، وہاں کے کلچر اور ثقافتی یلغار نے ہمارے گھروں میں قدم رکھا ہے۔ ہمارا خاندانی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ صرف ایک گھر، ایک خاندان اور ایک معاشرہ کا نقصان نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان ہمارے دین اور نظریہ حیات کے لحاظ سے بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ گھر گھر دکھائے جانے والے ٹی وی ڈراموں اور فلموں نے غیرشعوری طور پر کس بری طرح ہمارا گھریلو نظام برباد کیا ہے اس کا اندازہ اس ایک خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف لاہور میں ایک دن میں 100 طلاق کے مقدمات فیملی کورٹ میں رجسٹرڈ ہوئے جبکہ فروری2005ء سے 2008ء تک پورے صوبے میں طلاق کے مقدمات 75 ہزار کے قریب رجسٹرڈ ہوئے۔یہ اعدادو شمار 2008ء کے ہیں یہ قلم 2016ء کا ہے اور 2016ء میں طلاق کے اعدادو شمار دوگنے ہوگئے ہیں۔ ان تمام مقدمات کی تفصیلات کے بعد جو بات سامنے آئی وہ صبر و تحمل کی کمی اور عدم برداشت تھی۔ اگر یہی صورتحال رہی تو آنے والی نسلیں اس عذاب سے بری طرح متاثر ہوں گی اور وہ آشیانے اجڑ جائیں گے جہاں صحت مند قوم تشکیل پاتی ہے اور وہ گود بانجھ ہوجائے گی جہاں گھروں اور قوموں کو عظمتوں سے ہمکنار کرنے والے نونہال تربیت حاصل کرتے ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ جس قدر اہم ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ گھروں کو برباد کرنے والے واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ معمولی باتیں جو تحمل و بردباری سے طے ہوسکتی تھیں‘ عدم برداشت اور خود پر قابو نہ پاسکنے کےباعث بڑے بڑے حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کی حیات بخش تعلیم سے محرومی اور میڈیا کا زہر جو صبح سے شام تک آنکھوں کے سامنے ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر نوجوان نسل کے دل و دماغ میں اتارا جارہا ہے۔ اس فساد میں ایک بہت بڑا فیکٹر موبائل فون ہے جو عذاب بن کر ہنستے بستے‘ گھروں کو بدگمانیوں کا شکار کرکے اجاڑ دیتا ہے۔قارئین! گھر کیسے بچائیں؟ کچھ تجربے‘ کچھ مشاہدے‘ کچھ باتیں‘ کچھ یادیں جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک تجربہ بار بار ہوا ہے والدین کا کردار اولاد میں ضرور منتقل ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک بہت بڑے بزنس مین اور سیاسی آدمی کی فیملی میرے پاس بیٹھی تھی دونوں بیٹیوں کے شوہر نہایت بدتمیز‘ بداخلاق‘ بدکردار‘ شراب‘ شباب اور گندی زندگی کے ایسے خوگر ہیں کہ جس کا اظہار کرنا زبان اور قلم کے بس میں نہیں۔ میں نے اچانک سوال کیا کہ والد صاحب کی عمر کتنی ہے؟ کہنے لگے: ساٹھ سال سے نکل گئے ہیں‘ کیا جو کردار بیٹوں کا ہے آپ کے والد صاحب کا تھا؟ جھینپے‘ دبے اور الجھے لہجے کے ساتھ بولے بالکل ایسے تھے! میری آہ نکلی‘ کہ بیٹیوں کا کیا قصور؟ لیکن بڑوں سے سنا تھا‘ کرے کوئی بھرے کوئی! یہ دنیا مکافات کا نظام ہے۔ 2۔ رزق حلال ہے یا حرام‘ جائز ہے یا ناجائز‘ اس کا نسلوں سے بہت زیادہ تعلق ہے‘ حلال رزق آنکھوں میں‘ دل میں‘ جذبوں میں‘ کیفیات میں حیاء بھرتا ہے اور رزق حرام اس کے برعکس۔ 3۔ مشینی اور سائنسی دنیا میں سب کو وقت دیا۔ موبائل‘ ٹی وی‘ کیبل‘ ڈش‘ انٹینا‘ انٹرنیٹ‘ محفلوں اور مجالس کیلئے وقت ہے لیکن بیوی اور اولاد کیلئے وقت بالکل نہیں۔ جب شوہر بیوی کو وقت نہیں دیتا تو پھر بیوی اپنی مصروفیات‘ شوہر اپنی مصروفیات اور اولاد اپنی مصروفیات کہیں اور ڈھونڈ لیتی ہے۔ یہیں سے تربیت کا فقدان اور کمی پیدا ہوتی ہے اور گھر ٹوٹ جاتا ہے۔ 4۔ اولاد کو پہلے دن ڈاکٹر انجینئر، بڑا آدمی بننے کا سبق دیا جاتا ہے انسان بننے‘ برداشت کرنے اور تحمل کرنے کا سبق دیا ہی نہیں جاتا۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کا سبق یہ دیا جاتا ہے کہ بیٹی بہو بن کر گھروں میں آگ لگا دیتی ہے یا پھر بیٹا کسی کی لخت جگر کو تڑپا کر کوئلہ کردیتا ہے۔ 5۔ عمومی طور پر عبادات کا رواج ہے اور اس کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں لیکن اخلاق کا نہ رواج ہے‘ نہ اس کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ پھر وہی ساس جو بیٹیوں کیلئے سچی ماں اور ممتا اور بہو کیلئے شیرنی ہوتی ہے اور اس کا کلیجہ بہو کے معاملے میں نہایت پتھر اور سخت ہوتا ہے۔ 6۔ پہلے دن بیٹی کو تحمل، بردباری، معاف کرنا، برداشت کرنے کا سبق دیا ہی نہیں جاتا اور یہ ایک وقت کی بات نہیں یہ پہلے دن سےمسلسل تربیت اور محنت کی بات ہے۔ 7۔ بیوی کہتی ہے بیٹی جوان ہوگئی ہے ڈگریاں لے لی ہیں‘ اب شادی کا سوچو! لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ کیا میں نے بیٹی کو تحمل کی بی ایس سی‘ معاف کرنے کی ایم ایس سی‘ برداشت کرنے کی ایم بی اے‘ اچھے بولوں کا اے لیول اور میٹھے لہجوں کا او لیول، رشتوں کے احترام کا ایم فل، اور جو زندگی میسر ہے اس میں قناعت اور برداشت کی پی ایچ ڈی‘ سب کو ساتھ لے کرچلنا اور خدمت سے دل موہ لینا کی ایم بی بی ایس، فضول خرچی، برانڈ کے نام پر وقت اور دولت کا ضیاع کی اسپیشلسٹ ایف سی پی ایس کیا بیٹی اوربیٹے کو یہ ڈگریاں بھی دیں۔ آئیے! ہم معاشرے کو بچائیں ہر چیز غیرمسلم کی سازش نہیں ہوتی‘ کچھ سازشیں ہماری اپنی بھی ہیں۔ میری دردمندانہ درخواست ہے۔ میں بھی اور میرے تمام قارئین بھی اس پر توجہ کریں‘ تب کام بنے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں